نوح (ع) کی کشتی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
|
نوح (ع) کی کشتی
استاد نے فرمایا نوح (ع) کی کشتی سے کیا سبق لیا آپ نے.؟ ہم سب نے اپنے اپنے جوابات دیئے. استاد نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے مگر میں نے کچھ اور سبق لیا. فرمانے لگے آپ نے غور کیا نوح (ع) کی کشتی میں جو جانور سوار ہوئے وہ جب واپس کشتی سے اترے تو جانور ہی تھے. جانور بن کے سوار ہوئے اور جانور بن کر اترے. جب کہ انسان جس طرح سوار ہوئے تھے اس سے کہیں زیادہ مومن بن کر نکلے کیونکہ نوح (ع) کے بات کی حقیقت دیکھنے کے بعد ان کے ایمان میں اضافہ ہوا. لہٰذا کشتی میں سوار ہونا معیار نہیں ہے، آپ اس کشتی کے ناخدا معصوم (ع) کی صحبت سے کیا اثر لیتے ہیں یہ اہم ہے.
اب رسول (ص) نے فرمایا إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَیتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَةِ نُوحٍ، میری اہل بیت (ع) کی مثال نوح کی کشتی کے مثل ہے. اہل بیت (ع) کی اس کشتی میں سواری کی شرط محبت اہل بیت (ع) ہے مگر سوار ہونے کے بعد آپ اہلبیت (ع) سے کتنا اثر لیتے ہیں یہ اہم ہے. اگر آپ اس کشتی میں سوار ہونے سے پہلے بھی گنہگار تھے، بے نمازی تھے، خلق خدا سے محبت نہیں کرتے تھے، غریب کا خیال نہیں رکھتے تھے، والدین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے اور کشتی میں سفر کرنے کے بعد بھی ویسے کے ویسے رہے تو سمجھیئے آپ ان ہی بھیڑ بکریوں کی مانند ہیں جو نوح (ع) کی کشتی میں رہ کر بھی جانور ہی رہے.
Share with your friends



Comments
Post a Comment